پی پی اور ن لیگ میں سینیٹ الیکشن پر ڈیل ہوسکتی ہے، تجزیہ کار
کراچی(جنگ نیوز) سینئر تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نواز شریف کے خطرناک کھیل میں حصہ نہیں بنے گی، پی پی اور ن لیگ میں سینیٹ الیکشن پر ڈیل ہوسکتی ہے لیکن کوئی آئینی ترمیم ہونے نہیں جارہی،پی پی اور ن لیگ کے درمیان ڈیل اپوزیشن لیڈر تبدیل نہ کرنے، عبوری حکومت، چیئرمین نیب کے تقرر پر ہوں گی،پیپلز پارٹی آرٹیکل62/63ختم کرنے کیلئے ن لیگ سے بات کرنے پر تیار ہوجائے گی، عمران خان کو خدشہ ہے کہ حکومت آئی بی چیف کو چیئرمین نیب نہ لگادے،اسی پس منظر میں آئی بی اور آئی بی چیف کے خلاف شور مچ رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ماروی سرمد، ارشاد بھٹی، حفیظ اللہ نیازی، بابر ستار، شہزاد چوہدری اور مظہر عباس نے جیو نیوز کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان عائشہ بخش کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کیا۔ میزبان کے پہلے سوال عمران خان کا جارحانہ رویہ، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے پس پردہ رابطے، کیا ان دونوں کا اتحاد انتخاب سے پہلے آئین میں ترمیم کرسکتا ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے ارشاد بھٹی نے کہا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے تین جگہوں پر پس پردہ رابطے بحال ہیں، یہ رابطے ن لیگ کی خواہش پر ہورہے ہیں، عمران خان کے جارحانہ رویے کے باوجود پیپلز پارٹی نواز شریف کے خطرناک کھیل میں حصہ نہیں بنے گی، پیپلز پارٹی نے نواز شریف کی ہر معاملہ میں مدد کی،لیکن جب آصف زرداری پر مشکل وقت آیا تو نواز شریف نے رابطے منقطع کرلیے، نواز شریف سویلین و جمہوری بالادستی اور پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن پچھلے چار سالوں میں وہ تیس مرتبہ لندن اور پندرہ مرتبہ پارلیمنٹ میں آئے۔حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ اس وقت اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعتیں ہیں، آئندہ نواز شریف، عمران خان اور آصف زرداری تینوں مل کر آرٹیکل 62/63ختم کروائیں گے۔مظہر عباس کا کہنا تھا کہ خورشید شاہ بطور اپوزیشن لیڈر خود کو بچانے میں کافی حد تک کامیاب ہوگئے ہیں، موجودہ صورتحال میں پیپلز پارٹی عوامی سطح پر ن لیگ کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کرے گی، پی پی اور ن لیگ میں سینیٹ الیکشن پر ڈیل ہوسکتی ہے لیکن کوئی آئینی ترمیم ہونے نہیں جارہی۔شہزاد چوہدری نے کہا کہ عمران خان سیاسی لینڈ اسکیپ کو صحیح طور پر سمجھ نہیں پارہے ہیں، عمران خان نے پیپلز پارٹی کیخلاف جارحانہ رویہ بلاوجہ اختیار کیا، 2018ء کے الیکشن کے بعد انہیں حکومت بنانے کیلئے پیپلز پارٹی کی ضرورت پڑسکتی ہے، پیپلز پارٹی ، ن لیگ کے ساتھ مل کر پنجاب میں کچھ جگہ بنانا چاہتی ہے،پیپلز پارٹی آرٹیکل62/63ختم کرنے کیلئے ن لیگ سے بات کرنے پر تیار ہوگی۔بابر ستار کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں پیپلز پارٹی ، ن لیگ کے ساتھ مل کر آئینی ترمیم کی کوشش نہیں کرے گی، اگر پیپلز پارٹی نے ن لیگ کے ساتھ مل کر آئینی ترمیم کی کوشش کی تو پنجاب میں رہی سہی حمایت سے بھی محروم ہوجائے گی، پی پی اور ن لیگ کے درمیان ڈیل اپوزیشن لیڈر تبدیل نہ کرنے، عبوری حکومت، چیئرمین نیب کے تقرر پر ہوں گی۔ماروی سرمد نے کہا کہ پیپلز پارٹی انتخابات اتنے قریب ہوتے ہوئے ن لیگ کے ساتھ ڈیل نہیں کرے گی، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام ف آرٹیکل 62/63میں تبدیلی کی اجازت نہیں دیں گی۔دوسرے سوال آئی بی اور آئی بی چیف کے خلاف منظم مہم، وجہ کیا ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے شہزاد چوہدری نے کہا کہ عمران خان کو خدشہ ہے کہ حکومت آئی بی چیف کو چیئرمین نیب نہ لگادے،اسی پس منظر میں آئی بی اور آئی بی چیف کے خلاف شور مچ رہا ہے۔ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ حکومتیں سیاسی مفادات حاصل کرنے کیلئے آئی بی کو استعمال کرتی رہی ہیں، آئی بی کے انسپکٹر کا اپنے ہی ادارے الزام بہت سنجیدہ ہے اس کی تحقیقات ہونی چاہئے، آئی بی سربراہ آفتاب سلطان اصول پسند افسر سمجھے جاتے ہیں ،آفتاب سلطان چیئرمین نیب کیلئے نام آنے کی وجہ سے سیاسی کراس فائرنگ کی زد میں آچکے ہیں۔حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ سابق آرمی چیف آصف نواز کے دور میں آئی بی اور آئی ایس آئی میں بڑا تصادم ہوچکا ہے، ملکی سیاست میں اہم کردار ہمیشہ آئی ایس آئی کا رہا ہے، بینظیر بھٹو کو اقتدار میں آنے سے روکنے کیلئے آپریشن مڈنائٹ جیکال آئی بی کے بس کی بات نہیں تھی۔مظہر عباس نے کہا کہ پاکستان میں انٹیلی جنس ایجنسیاں سیاست زدہ نظرا ٓتی ہیں، ایسی صورتحال میں انٹیلی جنس ایجنسیوں پر تنقید ہوگی اور اسے سہنا بھی پڑے گا، ایجنسیوں کو سیاست زدہ کیا جائے گا تو ان کے درمیان جھگڑے بھی ہوں گے۔ماروی سرمد کا کہنا تھا کہ آئی بی اور آئی چیف کیخلاف منظم مہم چل رہی ہے، ایک چینل کو باقاعدہ جعلی میمو دیا گیا جو اس نے چلایا، اس میں جعلی فہرست لگائی گئی جس میں ہمارے وزیرقانون کا بھی نام تھا، ہمارے کچھ چینلز نے پارلیمنٹ اور کچھ نے جیوڈیشری کیخلاف بات کرنے پر کمر باندھی ہوئی ہے، ہر ملک میں حساس اداروں کا کیچڑ میں لتھڑا ہوا ہوتا ہے ، حساس اداروں پر سب سے زیادہ نظر رکھنے کی ضرورت ہے اسی لئے مہذب معاشروں میں سیکیورٹی سیکٹر پر پارلیمانی نگرانی کی بات ہوتی ہے۔بابر ستار نے کہا کہ اگر آئی ایس آئی اور آئی بی کے درمیان جھگڑا ہوجائے تو ایک مقدس گائے اورا یک گائے ہے، گائے کے ساتھ تو وہی سلوک ہوتا ہے جیسا نظر آرہا ہے، درخواست گزا ر نے عدالت میں فرمائش کی کہ آئی بی کی تحقیقات آئی ایس آئی سے کروائی جائے، اگر آئی ایس آئی کے ساتھ کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی ہوتی تو ملک میں طوفان مچا ہوتا۔
Comments
Post a Comment